Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

جویریہ سے اس کی دوستی گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی جا رہی تھی۔ وہ کالج کی دوسری لڑکیوں سے مختلف تھی  سادہ اور کسی حد تک کم عقل لڑکی تھی اور ماہ رخ کی خوبصورتی سے بہت زیادہ متاثر تھی۔ خود چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ تین بڑے بھائیوں کی شادی ہو چکی تھی  چوتھے بھائی کی منگنی ہو چکی تھی اور وہ جو جویریہ کو دل و جان سے چاہتا تھا۔ ویسے تو وہ گھر بھر کی لاڈلی تھی  مما پپا کی اس میں جان تھی  وہ چاروں بھائیوں سے چھوٹی تھی  فرسٹ ایئر کی طالبہ ہونے کے باوجود اس کو بچوں کی طرح ہی ٹریٹ کیا جاتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ اس میں وہ مکاری و چالاکی نہ آ سکی تھی جو عموماً اس عمر میں اکثر لڑکیوں میں پائی جاتی ہے۔
اس کی یہی سادگی ماہ رخ جیسی خواہشوں کے پروں سے آسمان کی بلندیوں کو چھونے کی خواہاں لڑکی کو حوصلے دے رہی تھی۔
(جاری ہے)
دو بار وہ جویریہ کے گھر بھی جا چکی تھی اور اس کے ایک ہزار گز پر بنے بنگلے ڈھیروں آسائشیں اور ملازموں کی فوج دیکھ کر اسے اپنے ایک سو بیس گز کے پرانے طرز کے چھوٹے سے گھر سے نفرت ہونے لگی تھی اور گھر والوں سے بھی الجھن ہونے لگی تھی۔
جب سے وہ آئی تھی جویریہ کے ہاں سے تب سے ہی وہ خواہشوں کے جنگل میں مستقل بھٹکنے لگی تھی۔

”دن کا آدھے سے زیادہ حصہ تم پڑھائی کیلئے گھر سے باہر رہتی ہو اور جب گھر میں آتی ہو تو گھر میں ہوتے ہوئے بھی تمہارے ہونے کا احساس نہیں ہوتا  سوچوں کے اندر نامعلوم کن سفروں پر نکلی رہتی ہو تم…؟“ فاطمہ جو گھر کے کام کاج کے دوران گاہے بگاہے اس کو بھی دیکھ رہی تھیں اس کو اپنی سوچوں میں اس قدر محو دیکھ کر اس کو ٹوکے بنا نہ رہ سکیں۔
ماں کی آواز پر اس نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔

وہ آف وہائٹ پرنٹڈ سوٹ میں ملبوس تھیں۔ اس نے کبھی اپنی ماں اور چچی کو کھلے سر نہ دیکھا تھا  وہ پوری آستیوں کے کپڑے پہنتی تھیں ان کے کپڑوں کا رنگ ہمیشہ ہلکا ہوتا تھا  آج بھی اس کی ماں اپنے مخصوص لباس و انداز میں تھیں اور اس کی نگاہ میں جویریہ کی ممی کی بنارسی سرخ ساڑی  جیولری اور میک اپ زدہ چہرہ گھومنے لگا۔
ان کے رنگے ہوئے باب کٹ بال تھے۔ اس کو جویریہ کی ممی بے حد پسند آئی تھیں۔ پراعتماد اور کسی کی بھی پرواہ نہ کرنے والی… ایسی ہی عورتیں اس کی آئیڈیل تھیں  وہ بھی ایسی ہی بننا چاہتی تھی۔ چچی اور امی دونوں ہی بے حد خوبصورت تھیں مگر امی چچی سے زیادہ حسین تھیں ہر لحاظ سے مکمل مگر وہ دقیانوسی تھیں پرانی اقدار کی پاسداری نے ان کی خوبصورتی و حسن کو پردے اور چار دیواری کا گرہن لگا دیا تھا اور وہ اس سے بھی یہی توقع کرتی تھیں کہ وہ پردے کا استعمال کرے مگر وہ ہوا تھی جو کب کسی کی دسترس میں آئی ہے۔
اس کا خیال تھا کہ بدبصورتی کو چھپانا چاہئے  خوبصورتی کو چھپانا ظلم ہے حسن پر… چاند کی چاندنی سب کیلئے ہوتی ہے چاند کو بادل بھی چھپانا چاہتے ہیں پر کہاں چھپا پاتے ہیں لمحوں میں وہ ان کی گرفت سے نکل آتا ہے۔

”رخ! کیا ہوا بیٹی! یہ کیا ٹکر ٹکر دیکھے جا رہی ہے  کچھ کہو! کیا پریشانی ہے؟“ فاطمہ اس کو یوں گم صم بیٹھا دیکھ کر اس کے قریب ہی بیٹھ گئیں۔

”امی! کیا ہم کبھی امیر نہیں ہوں گے۔ کیا ہمارے حالات کبھی نہیں بدلیں گے؟“ فاطمہ نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں عجیب سی اداسی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آرزوئیں نمی بن کر چمک رہی تھیں۔ ان کے دل کو کچھ ہوا تھا۔

”ہم امیر نہیں ہیں تو غریب بھی نہیں ہیں  اللہ کا شکر ہے پیٹ بھر کر کھاتے ہیں  ہر خواہش پوری ہوتی ہے ہماری۔ محلے میں  خاندان میں عزت ہے ہماری  سب ہم سے ملتے ہیں باہر تمہارے باپ  چچا اور گلفام کی سب ہی تعریف کرتے ہیں۔

”ایک غریب دوسرے غریب کی عزت ہی کرتا ہے  یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے۔“

”اچھا! پھر فخر کی کیا بات ہے؟“ وہ تحمل سے گویا ہوئیں۔

”بڑا سا بنگلہ جہاں خوبصورت لان ہو  نوکروں کی فوج اور ہر وہ شے جو آرام دے اور ہم اپنی زندگی آزادی اور اپنی مرضی سے گزار سکیں۔“

”یہ کیسی خواہش تم پالنے لگی ہو رخ! اپنے حال میں خوش رہنا سیکھ بیٹی!“

”امی! خواہشیں ہی تو زندگی کو بناتی ہیں  ان کا حسن تو پورا کرنے میں ہے۔
امی ابو کو کہئے کہ یہ جگہ فروخت کریں  کسی پوش علاقے میں ہم کوئی شان دار سا بنگلہ خرید لیں گے  آپ کو اور چچی کو کوئی کام کرنا نہیں پڑے گا  ایک اشارے پر نوکر کام کیا کریں گے  باہر جانے کیلئے موٹر کار ہو گی  یہ سرکاری بسوں کی خواری و انتظار نہ ہو گا۔“ ان کو نرم دیکھ کر وہ حال دل کہہ گئی۔

”پگلی ہو گئی ہے رخ! یہ گھر تیرے ابو کبھی چھوڑ کر نہیں جائیں  یہاں اُن کے ماں باپ کی نشانی ہے ان کو اس گھر سے بہت محبت ہے  بہت انسیت ہے۔


”دادا دادی کو اس دنیا سے گئے برسوں بیت گئے ہیں  ابو کو وہ اب یاد بھی نہیں ہوں گے  آپ ان سے بات تو کرکے دیکھیں امی!“

”جب ہم مر جائیں گے ماہ رخ! تو تم ہمیں یاد نہیں رکھو گی  بھول جاؤ گی؟“ اس کا اس سنگدلی سے کہنا فاطمہ کے دل کو مضطرب کر گیا تھا۔

”اوہو امی! آپ بات کو کہاں سے کہاں لے گئیں  میرا یہ مقصد تو نہیں تھا۔
“ وہ جھنجلا کر بولی تھی اور فاطمہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔

”آپ راضی کریں ابو کو وہ یہ گھر بیچ کر کسی اچھی جگہ خوبصورت سا بنگلہ یا کوٹھی خرید لیں  یہاں تو میں اپنی دوستوں کو بھی نہیں بلا سکتی  یہ محلہ اور یہ گھر دونوں ہی اس قابل نہیں ہیں  وہ تو مجھے کسی امیر کبیر خاندان کا سمجھتی ہیں۔“ اس کے لہجے میں ضد اتر آئی تھی۔ فاطمہ اسے دیکھتی رہ گئیں۔

###

آصفہ آئی ہوئی تھیں  بڑی نند کی موجودگی میں صباحت کو موقع مل گیا تھا کہ وہ عائزہ کے سسرال والوں کو بلانے کی بات ساس سے کر سکیں کیونکہ آصف کی اور ان کی بہت بنتی تھی۔ وہ دونوں ہم مزاج اور ہم خیال تھیں۔

”آصفہ آپا! آپ ہی مشورہ دیں عائزہ کے سسرال والوں کو کس دن بلایا جائے  بھابی تو روز ہی فون کر رہی ہیں  وہ بے چین ہیں عائزہ کی منگنی کیلئے  ان کی پہلی پہلی خوشی ہے جس کو دیکھنے کی خاطر وہ بے چین تھیں۔

”نیک کام میں دیر کیسی  جھٹ پٹ ہونے چاہیں ایسے کام تو۔“ وہ فراخ دلی سے گویا ہوئیں۔

”اماں جان کی اجازت چاہئے مجھے تو۔“ وہ ان کی طرف دیکھ کر گویا ہوئیں۔

”میری اجازت کی کیا ضرورت ہے جب دل چاہے کر لو۔“

”اماں جان! آپ بھی کبھی کبھی عجیب باتیں کرتی ہیں  اس گھر میں کوئی کام آپ کی اجازت کے بغیر ہوا ہے  جواب صباحت اپنی مرضی سے کریں گی؟“ آصفہ ماں کے سرد انداز پر حیرت سے بولیں۔

”پہلے نہیں ہوا تو اس کا یہ مقصد نہیں ہے کہ کبھی نہیں ہوگا؟“ ان کے لہجے کی خفگی صباحت بخوبی محسوس کر رہی تھی مگر وہ ان بے حس لوگوں میں شمار ہوتی تھیں جو صرف اپنی بات کو اہمیت دیتی ہیں۔

”کیا بات ہو گئی ہے اماں! آپ تو خاصی ناراض دکھائی دے رہی ہیں؟“ آصفہ ان کی طرف متوجہ ہوئیں۔

”میں بتاتی ہوں۔“ اماں کے بولنے سے پہلے صباحت تیزی سے بولیں۔
اماں اس رشتے سے خوش نہیں ہیں  یہ نہیں چاہتیں کہ عائزہ کا رشتہ ہو۔“

”اماں کیوں نہیں چاہیں گی صباحت! یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟“

”یہ اماں سے ہی معلوم کریں جس دن سے رشتہ ہوا ہے ان کا موڈ ہی آف ہے  آج آپ آئی ہیں تو میرا کچھ حوصلہ ہوا ہے پوچھنے کا ورنہ اماں نے تو پلٹ کر پوچھا ہی نہیں ہے کہ کب آ رہے ہیں عائزہ کے سسرال والے؟“

اماں خاموشی سے سن رہی تھیں اور ان کی خاموشی صباحت کو حوصلہ دے رہی تھی۔

اماں کو غصہ اس بات کا ہے کہ پہلے عائزہ کی منگی کیوں ہو رہی ہے یعنی پہلے پری کی ہونی چاہئے۔ اب آپ ہی بتائیں آپا! میری بیٹیوں اور پری کا کوئی مقابلہ ہے؟ میری بیٹیاں میرے نام سے جانی جاتی ہیں اور پری اپنی ماں کے نام سے پہچانی جاتی ہے اور یہ سب ہی جانتے ہیں پری کی ماں کا کردار کیا تھا  کم از کم خاندان سے تو اس کے رشتے آنے والے نہیں ہیں اور اس کے انتظار میں  میں اپنی بیٹیوں کو بوڑھی نہیں کر سکتی  بس اس بات پر اماں خفا ہیں جو پوچھ نہیں رہیں۔
“ صباحت نے پوری تفصیل سے بات کہہ دی تھی۔

”مجھے یقین نہیں ہے ان باتوں پر… اماں بھلا ایسا کیوں کریں گی؟ اماں کیلئے تو چاروں پوتیاں برابر ہیں  انہوں نے دو عورتوں سے بے شک جنم لیا ہے مگر تعلق تو ان کا ایک باپ سے ہے۔“ حیرت انگیز طور آج آصفہ نے کھری باتیں کی تھیں۔ صباحت منہ کھولے ان کو دیکھتی رہ گئیں۔

”مگر یہ بات بہو بیگم کی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے  ان کے اندر کا دوغلا پن ہر جگہ ان کو ان کی فطرت کے مطابق تصویر دکھاتا ہے  فیاض صرف پری کی وجہ سے ان سے شادی کیلئے تیار ہوا تھا اور انہوں نے آتے ہی اس بچی کو اپنی سب سے بڑی دشمن سمجھ لیا اب جیسے خود سوتیلا پن کرتی ہیں  ویسے ہی مجھے سمجھ رہی ہیں۔
“ اماں رعب دار لہجے میں ناگواری سے گویا ہوئیں۔

”جب میں نے آپ کو عائزہ کے رشتے کا بتایا تو آپ نے کہا پری بڑی ہے پہلے اس کا رشتہ طے ہو گا پھر عادلہ اور عائزہ کی باری آئے گی  کیا میں جھوٹ کہہ رہی ہوں؟“ حسب عادت اپنی ہار دیکھ کر وہ رونے لگی تھیں۔

”مجھ کو یہ آنسو دکھانے کی ضرورت نہیں ہے  میں متاثر نہیں ہوں گی ان بلاوجہ کے چونچلوں سے… میرا انکار تمہیں یاد ہے  یہ یاد نہیں ہے کہ میں نے ہامی بھر لی تھی اور کہا تھا اپنی بھابی کو کہو پہلے وہ رشتہ لے کر آئے  جو طریقہ ہے پھر ہم مشورہ کرکے جواب دیں گے یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔

”جب ہم راضی ہیں تو پھر کیوں یہ دکھاوا کریں جو سراسر وقت کا زیاں ہے۔“

”وقت کا زیاں ہے تو منگنی بھی کیوں کر رہی ہو  سیدھے سبھاؤ بھاوج کو کہہ دو بارات لے کر آ جائے  وقت بھی بچ جائے گا اور پیسہ بھی۔“

”بعض دفعہ تو آپ اماں بات نہیں کرتیں گویا جلتی پر تیل ڈالتی ہیں اب بھلا میں اپنی بچی کے کام میں کنجوس بنوں گی جو آپ کہہ رہی ہیں پیسہ بھی بچا لوں۔

”اماں! آپ کو اس بات پر غصہ ہے کہ صباحت کی بھابی باقاعدہ رشتہ لے کر نہیں آئی ہیں لیکن انہوں نے آپ سے بات تو کی ہو گی  بتایا ہوگا ان کا کیا ارادہ ہے؟“ آصفہ نے ایک دم ماحول میں پیدا ہونے والے تناؤ کو ختم کرنے کیلئے سوال کیا۔

”ملال تو اس بات کا ہے  روز فون آ رہے ہیں  جا رہے ہیں مگر نہ بہو بیگم کو توفیق ہوئی کہ کہہ دیں اپنی بھابی سے کہ ایک دفعہ جھوٹے منہ ہی میری ساس سے تو اپنی خواہش کا اظہار کر دو اور دوسری طرف بھی آخر کو ان ہی کی بھاوج ہیں  ان کو کیوں خیال آنے لگا میرا… وہی بات ہوئی کہ سمدھن راضی تو کیا کرے گی اماں پاجی؟“ غصیمیں وہ دو دھاری تلوار بنی ہوئی تھیں۔

”توبہ ہے اماں جان! آپ بھی بس…“ آصفہ بے اختیار ہنسنے لگی تھیں پھر یک دم سنجیدہ ہوئیں۔ ”چھوڑیں ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر کیا دل خراب کرنا  آپ ہماری بڑی ہیں اور بڑوں کو اپنا دل بھی بڑا کرنا پڑتا ہے جب ہی تو چھوٹوں کی غلطیاں اور گستاخیاں درگزر و معاف کی جاتی ہیں۔ اگر بڑے بھی چھوٹوں سے مقابلہ کرنے لگیں تو خاندان بکھر جاتے ہیں پھر صحیح اور غلط کی پہچان مٹ جاتی ہے۔

“ آصفہ اماں سے لجاجت بھرے لہجے میں گویا ہوئی تھیں جب کہ صباحت خاموشی بیٹھی ہوئی تھیں مگر ان کے چہرے پر اچھے تاثرات نہ تھے۔ ”صباحت! تم سے بھی غلطی ہوئی ہے  جب تم سے بھابی نے کہا تھا تم ان کو یہاں بلوا لیتیں اگر ان کے پاس ٹائم نہیں تھا تو فون پر ہی اماں سے بات کروا دیتیں  اس طرح اماں کا دل بھی خوش ہو جاتا اور وہاں بھی عزت میں اضافہ ہوتا کہ تم اتنی تابعدار بہو ہو کہ ہر فیصلے میں ساس کی رائے کو اہمیت دیتی ہو  سننے میں تو تم کو شاید میری یہ باتیں بے معنی لگیں مگر یاد رکھنا  وقت سب کا کبھی ایک سا نہیں رہتا  لوگوں کے مزاج بھی موسموں کی طرح بدل جاتے ہیں  آج تم ان چھوٹی چھوٹی نزاکتوں کا خیال رکھو گی تو کل تمہاری بچیوں کے اچھے مستقبل کی ضمانت ہو گی۔

”خیر میں تو زبردستی عزت کروانے والوں میں سے نہیں ہوں  جو بات غلط تھی وہ میں نے کہہ دی مگر میرا ارادہ ہے مذنہ کے مری سے آنے کے بعد منگنی کی رسم کی جائے تو بہتر ہے اور میں فراز کو بھی فون کروں گی  گھر کی پہلی خوشی ہے اس میں وہ بھی شریک ہو جائے تو اچھا رہے گا۔“ وہ نارمل انداز میں گویا ہوئی۔

”یہ بات تو ٹھیک کی آپ نے مگر بھابی کب آئیں گی؟“ آصفہ نے پوچھا۔

”مذنہ اسی ہفتے آنے والی تھی  اس کے ماموں نے روک لیا  ساتھ اس کو چترال لے گئے ہیں اب دیکھو کتنے دن وہاں رہتی ہے۔ صباحت! تم اپنی بھاوج کو کہہ دو وہ آکر اپنی خوشی سے عائزہ کا منہ میٹھا کروا دیں  پھر رسم بعد میں کریں گے دھوم دھام سے۔“

”یہ ٹھیک ہے اماں جان! میں ابھی بھابی کو فون کرتی ہوں بلکہ آپ کی بات کرا دیتی ہوں  وہ انکار نہیں کریں گی  سر کے بل چل کر آئیں گی۔“ اماں کو ہامی بھرتے دیکھ کر صباحت فوراً ہی مارے خوشی کے کھڑی ہو گئی تھیں۔

”اب میری پخ مت لگاؤ  جو کام کرنا ہے کرو تم۔“

”آپ کی یہ بات بہت اچھی ہے اماں! جو شکایت ہوتی ہے وہ آپ منہ پر کہہ دیتی ہیں۔ دل میں نہیں رکھتی ہیں۔“ آصفہ نے محبت سے ماں کو دیکھا تھا  وہ بھی مسکرا دیں۔

   3
0 Comments